
مجھ سے افسوس تو کر میرے بکھر جا نے کا
میں نے بنیاد تیرے دل میں رکھی تھی اپنی
ا تنے بھی کیا مصروف ہو گئے ہو
کہ اب دل دکھا نے بھی نہیں آ تے
غلط کہتے ہیں لوگ کہ صحبت کا اثر ہوتا ہے
وہ برسوں میرے ساتھ رہا اور بے وفا نکلا۔
تھوڑی تو محبت ہوئی ہو گی اسے مجھ سے ورنہ
صرف دل توڑ نے میں اتنا وقت کون برباد کرتا ہے
جنہیں حاصل نہ ہو ئے انہوں نے بدعا بہت دی
خیر بخشا انہوں نے بھی نہیں جنہیں مفت میں ملے ہم
جیسے گزر رہی ہے غنیمت ہے ہم نشیں اب
زندگی پہ غور کی فرصت نہیں مجھے
وہ چاہتا تھا مگر پہلے میں نے چھوڑا ہاتھ اُس
کے حصے کی ندامت بھی اٹھائی میں نے
ماضی کی چھن نے
میری آنکھوں کو ویران کر ڈالا
عین ممکن ہے تھکن سے مر جاؤں! سر پر
ماضی اُٹھا ئے پھرتی ہوں
اگر چھوڑنا بھی چاہو تو ممکن جواز رکھنا
ہم بے وجہ سزائیں بہت کاٹ چکے ہیں
شوق سے کرو دل سے اتر جا نے وا لے کام
پھر کیا خاص اور کیا عام
دنیا میں سب سے اکیلا انسان وہ ہے جو رات
کے کسی پہر اپنی تکلیف سے بار جاتا
\
یہ جملہ دماغی ہسپتال کی دیوار پر لکھا ہوا تھا
ہم ٹھیک تھے اگر وہ کسی اور کو میسر نہ ہوتا
دل پر یک طرفہ درد کو بھڑ تے دیکھا
ہم نے چپ چاپ اُ سے خود سے بچھڑ تے دیکھا ۔
شاید میری آخری ناراضگی ہے تم سے کیونکہ اسکے بعد
میں نے تمھیں سمجھا نے کے بجا ئے خود کو سمجھا لیا ہے
اس نے دھوکا نہیں دیا لیکن اس نے کبھی وہ چیزیں
ٹھیک نہیں کیں جو مجھے پریشان کرتی تھی
میری کہانی میں ایک قصہ ایسا بھی آیا تھا جس میں
وفادار بھی میں ہی تھی اور قصور وار بھی میں تھی۔
اتنی خاموشیاں کیوں ہوتی ہیں تیری آغوش میں اے قبرستان
لوگ تو اپنی جان دے کر تجھے آباد کر تے ہیں
یا رب بھیج نہ آسمان سے کوئی سبیل میں
ایک زمین زادے کے عشق میں زل گئی ہوں
آپ نے آ نے میں اس بار بہت وقت لیا
اب تو ہم سیکھ چکے یار گزارا کرنا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد سے دوا پائی درد لادوا پایا
سارے فیصلے تم نے خود ہی کر ڈالے اے زندگی ہم سے بھی پوچھا ہوتا
کیسے جینا تھا کتنا جینا تھا جینا تھا بھی یا نہیں
میں اکثر کہہ دیتی ہوں کوئی بات نہیں
تا کہ میرا دل دکھانے والوں کا دل نہ دکھے۔