کیا ستم ہے کی اب تیری صورت
غور کر نے پر یاد آ تی ہے۔
خوش فہمی سے شروع اور غلط فہمی پرختم
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت خیز بانہوں کا
وہ جو سمٹا ہو گاان میں وہ تو مر جا تے ہوں گے
میری فطرت میں نہیں اپنا غم بیاں کروں اگر تیری
روح کا حصہ ہوں تو محسوس کر تکلیف میری
یعنی یہ خاموشی بھی کسی کام کی نہیں
یعنی میں بیان کر کے بتاؤں کہ اداس ہوں میں
میں جو رابطہ ختم کر دوں تو سمجھ جانا
تم سے عشق اب اور بھی بڑھنےلگا ہے
میری تعریف کرے یا مجھے بدنام کرے
جس نے جو بھی بات کرنی ہے سرعام کرے
خیال تیرا بھی جان لیوا ہے لیکن
تیرے خیال سے نکلوں تو جان جاتی ہے
کتنی مختصر سی ہے محبت کی داستان
خوش فہمی سے شروع اور غلط فہمی پرختم
کیا ستم ہے کی اب تیری صورت
غور کر نے پر یاد آ تی ہے۔
... باتیں کر نے لگے ہو میٹھی میٹھی
مجھ سے کوئی کام پڑ گیا ہے کیا ؟
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا
قیامت خیز ہیں آنکھیں تمہاری
تم آخر خواب کس کے دیکھتے ہو
جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں
تم سزا بھی تو کم نہیں کر تے
میں کیوں کہوں کسی کو مطلبی
میں خود ا پنے رب کو مصیبت میں یاد کرتا ہو
مرشد تیرے سب تعویز بیکار ہی گئے
مرشد ہمارے سا منے وہ غیروں کا ہو گیا
اس کے ہونٹوں پے رکھ کے ہونٹ ا پنے
بات ہی ہم تمام کر ر ہے ہیں۔
دل کی تکلیف کام نہیں کر تے
اب کوئی شکوا ہم نہیں کر تے
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے۔
تمہیں مجھ سے محبت ہو گی کیا
زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
جو گُزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے۔
تیرے آ نے سے ،کچھ ذرا پہلے
بات تجھ سے ہی کر رہا تھا میں
ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے میرے ہر بیاں میں کیا ؟
اب نہیں کوئی بات خطرے کی ۔
اب سبی کو سب سےخطرہ ہے
مجھ کو عادت ہے روٹھ جا نے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجیے۔
کیا کہا عشق جاویدانی ہے!
آخری بار مل رہی ہو کیا
اب سنوار تے رہو بلا سے میری
.دل نے سرکار خود کشی کر لی
آج مجھ کو بہت بٌرا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا
کیسے اُس کی طلب چھوڑ دوں مولا وہ شخص پہلی
رکعت سے آخری رکعت تک میرے ذہن میں رہتا ہے